۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 361723
31 جولائی 2020 - 19:16
مولانا ڈاکٹر شہوار حسین نقوی

حوزہ/اخلاق و محبت، شفقت و مہربانی، تواضع و انکساری، متانت و دیانت، فطانت و ذہانت سے سرشار جس بزرگ عالم دین کی تصویر ذہن میں ابھر کر آتی ہے وہ ذات مولانا سید ابن حیدر کی تھی۔

تحریر: مولانا ڈاکٹر شہوار حسین نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی | اخلاق و محبت، شفقت و مہربانی، تواضع و انکساری، متانت و دیانت، فطانت و ذہانت سے سرشار جس بزرگ عالم دین کی تصویر ذہن میں ابھر کر آتی ہے وہ ذات مولانا سید ابن حیدر کی تھی ، وہ ولادت اور بود و باش ہی کے اعتبار سے لکھنوی نہیں  بلکہ شائستگی، نفاست، طرز معاشرت، شیریں بیانی اور لہجے کی نرمی میں بھی لکھنوی تہذیب کے وارث تھے ۔
آپ نے ۲۸؍ ستمبر ۱۹۳۴ء کو سرزمین علم و ادب لکھنؤ میں سفر حیات کا آغاز کیا، جس ماحول میں آپ نے آنکھیں کھولیں وہ خالص علمی اور ادبی تھا، اس وقت لکھنؤ ارباب علم سے بھرا ہوا تھا لکھنوی تہذیب اپنے شباب پر تھی، ہر طرف شعر و سخن کی بزم آرائیاں تھیں جو اہل ادب کے دامن کو ادبی شہ پاروں سے بھر رہی تھیں۔ اہل علم کی مجلسیں علم و معرفت سے فضا کو مشکبار بنا رہی تھیں، اہل معرفت خشیت الٰہی اور پرہیزگاری سے ماحول کو روحانی بنا رہے تھے ایسے علمی اور روحانی ماحول میں مولانا کی پرورش ہوئی۔
 آپ کے والد ماجد مولانا علی حیدر صاحب مرحوم متقی و زاہد و ابرار تھے، لہٰذا ابتدائی تعلیم گھر ہی پر والد بزرگوار سے حاصل کی۔
مولانا کا بچپن ہی سے مذہبی تعلیم کی طرف رجحان تھا لہٰذا دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے مدرسہ مشارع الشرائع المعروف بہ جامعہ ناظمیہ میں داخلہ لیا۔
جامعہ ناظمیہ میں سرکار مفتی اعظم ؒ کی مسند درس بچھی ہوئی تھی اور بڑی تعداد میں طلباء اس چشمہ پر فیض سے فیضیاب ہورہے تھے، مولانا نے بھی اس موقع کو غنیمت سمجھا اور سرکار مفتی اعظم کی بارگاہ میں شرف حاضری حاصل کیا ۔سرکار مفتی اعظم سید احمد علی طاب ثراہ کی جامع شخصیت کے زیر سایہ رہ کر آپ کسب علوم میں مصروف ہوگئے۔ مدرسہ اسو قت روحانی اور با عمل اساتذہ سے چھلک رہا تھامختلف علوم و فنون کے اساتذہ طلباء کی تربیت اور انہیں علم سے آراستہ کرنے میں مشغول تھے۔
ایک طرف شہنشاہ ادب مولانا سید رسول احمد صاحب گوپالپوری انہیں گلستان ادب کی سیر کرارہے تھے تو دوسری طرف بابائے فلسفہ مولانا سید ایوب حسین صاحب سرسوی بحر معقولات میں غواصی سکھا رہے تھے۔
غرض کہ مولانا کو ہر بارگاہ سے نیاز حاصل رہا اس طرح آپ نے ۱۹۵۸ء میں مدرسہ کی آخری سند ممتاز الافاضل امتیازی نمبروں سے حاصل کی ۔ آپ کی علمی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے مدرسہ میں مدرس رکھا گیا اس وقت سے تا ہنوز مصروف تدریس رہے۔
 آپ کا انداز تدریس مشفقانہ تھا  عبارت کو نپے تلے لفظوں میں اس طرح حل فرماتے کہ فہم مطلب آسان ہوجاتا تھا  تطبیق عبار ت کے فن میں مہارت حاصل تھی ، آپ کا بیان حشو و زوائد سے پاک ہوتا تھا ، سینکڑوں کی تعداد میں آپ کے تلامذہ ہیں جو دنیا کے گوشے گوشے میں مصروف تبلیغ ہیں، راقم کو بھی آپ سے تلمذ حاصل تھا ۔
آپ کا اخلاق بے مثال تھا  ہر ایک سے مسکرا کر ملنا، خیریت معلوم کرنا آپ کا خاصہ تھا ، وسعت قلبی کا یہ عالم تھا  کہ اپنے شاگردوں کا بھی انتہائی احترام کرتے تھے  اور انہیں اعلیٰ مقام دیتے  آپ سے جتنی بار بھی ملاقات ہوئی ہے ایسے پرتپاک انداز سے ملتے کہ جیسے پہلی ملاقات ہو۔
آپ ایک اعلیٰ مدرس، جید الاستعداد عالم دین ہونے کے علاوہ بلند پایہ اور شہرت یافتہ خطیب اہلبیتؑ بھی تھے۔ آپ جس طرح مسند درس کی زینت تھے اسی طرح مجلس و منبر کی بھی رونق تھے۔
خطیب اعظم مولانا سید سبط حسن صاحب طاب ثراہ نے ذاکر ی کو جو اسلوب و نہج دیاجس پر آج ہماری ذاکری کار بند ہے، اس اسلوب کو نادرۃ الزمن مولانا ابن حسن نونہروی اعلیٰ اللہ مقامہٗ نے اپنے مخصوص طرز تکلم اور انداز وآہنگ سے جلا بخشی، اُسی اسلوب کے آ مولانا ابن حیدر صاحب قبلہ امین و وارث تھے ۔ نادرۃ الزمن ؒ کے بعد میدان خطابت میں ایک سناٹا سا محسوس ہونے لگا تھا مگر مولانا نے محنت و جانفشانی سعی و جستجو سے وہ ملکہ حاصل کیا جسے سننے کے لئے مومنین بے تاب تھے۔
آپ منفرد لب ولہجہ کے خطیب تھے  مقفیٰ و مسجع عبارت ، استعارہ و کنایہ، بندش الفاظ، لفظوں کی نشست وبرخاست سے بیان میں حسن پیدا ہوجاتا تھا۔ 
ان تمام خصوصیات کے باوجود آپ نام و نمود سے کوسوں دور اور آپ کی ذات ہر طرح کی تعلی و تفوق سے منزہ رہی افسوس ایسی عظیم شخصیت ۳۱جولائی ۲۰۲۰کو ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .